Thursday 28 March 2019

ادب کے حوالے سے قرن وسطیٰ میں معاشرتی اتحاد


تہذیب و تمدن یہ وہ لفظ ہیں، جس سے دنیا اپنی تاریخ کا مطالعہ کرتی ہے اور دنیا جس کے بدولت اپنے کو اعلیٰ و ارفعٰ سمجھتی ہے،اور دوسرے کے سامنے اپنے منہ میاں مٹھو بنتی ہے۔حقیت بھی یہی ہے کہ تہذیب و تمدن سے ہی اقوام عالم کی بنیاد ہے، اسی سے دنیا کی قومیں آباد ہیں،کہا جاتا ہے کہ تہذیب و تمدن نے ہی نے قوموں کو بلند کیا ،اور اسی تہذیب نے اس کو قعر مذلت میں گھسیٹا۔تہذیب انسانی زندگی کا ایک آینہ ہے جس میں انسان کو اپنا عکس نظر آتاہے۔قوموں نے تہذیب ہی کے سہارے دنیا پر حکمرانی کی ،اور اسی تہذیب نے ان سے حکومتیں چھین لیں۔اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں بہت ساری قومیں آباد ہوئیں ،اور جب ان قوموں نے انسانیت ، تہذیب و تمدن اور اتحاد معاشرت کو قائم رکھاتو وہ قوم قائم و دائم رہی ،لیکن جونہی انہوں نے غیر انسانی فعل اور غیر معاشرتی عمل کو اپنا یا صفحہ ہستی سے مٹادی گی۔
دور حاضر میں اگرتہذیب وتمدن کی بات کریں تواسکا معیار آج مغرب و مشرق میں تقسیم ہوگیا ہے، جہاں مغربی تہذیب ایک جدیدیت اور ماڈرنزم کے راہ پر گامزن ہیں ،وہیں مشرقی تہذیب اپنی روایت دیرینہ کی چولی دامن پکڑے ہوا ہے۔ اقبال ؔ نے مغربی تہذیب پر کا ری ضرب لگاتے ہوئے کہا ہے۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
ایک جگہ اقبال ؔ نے مشرق کے نوجوانوں کومغربی تہذیب سے پرہیز کرنے کو کہتے ہو ے کہا ہے ۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
اکبر الہ آبادی نے اسی بات کو اس انداز میں کہا ہے کہ
مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے
مغرب کے ناز و رقص کا اسکول اور ہے

تاریخ تمدن ہند۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ہم اپنے ملک ہندستان کی بات کرتے ہیں ،ہندستان میں تہذیبی تاریخ کی شروعات آج سے تقریبا ۵۰۰۰ سال قبل سندھو ندی اور اس کے اطراف میں سندھو اور ہڑپاتہذیب کی شکل میں دکھائی دیتا ہے،اس کے اثرات وسعت اور جغرافیائی کو دیکھتے ہوےئے اس تہذیب کو لوگوں نے حتمی نہیں مانا ہے، بلکہ قومی تہذیب کے ابتدائی نقوش ۱۰۰۰ سال قبل ویدک تہذیب کے روپ میں دکھائی دیتی ہے ۔ہندستان ایک کثیر تہذیبی ملک ہے یہاں کی تہذیب نہ صرف بہت قدیم ہے بلکہ اتنی وسیع ہے کہ ہماری ملک کی تہذیب کے چراغ دوسرے ملکوں میں بھی روشن ہے،بہت سی قدیم تہذیبیں مٹ گیءں،یونان ومصر جیسے تہذیبی گہوارے اپنا نام و نشان کھو بیٹھے، مگر ہندستان کی تہذیب اتنی پر قوت ہے کہ آج بھی ہندستان کی تہذیب دوسروں ملکوں کے لے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے،ہندستان جو تہذیبی رنگا رنگی اورتنوع ہے اس سے دنیا کے بہت سے ممالک محروم ہے۔یہاں کی تہذیبی کثرت میں جووحدت ہے یہی اس ملک کا سناش نامہ ہے۔ 

جب ہم ہندستان کی تہذیبی اور ملکی حدود کا تعین کرتے ہیں تو ہمیں کا فی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حکومت کا مرکزی نظم و نسق جو عام طور پر دہلی سے ہوتا تھا،ملک کو عملا متحد رکھنے والی واحد قوت تھی۔اس عملداری کا علاقہ ایک بادشاہ سے دوسرے بادشاہ تک بھی مختلف تھا،سلطنت دہلی کی حدود وقتا فوقتا بدلتی رہتی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہم کو صحیح اندازہ نہیں مل پاتا ہے کہ ملک کی حدود کیا تھی۔بہرحال سیاسی حدود کسی علاقے کے تہذیبی اثرات ناپنے کا صحیح پیمانہ نہیں ہوتے ،کیوں کہ وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ راجپوتانہ کے ناقابل عبور علاقوں نے بھی اپنے پڑوسی علاقوں کے تہذیبی اثرات کو اپنے اندر اس حد تک جذب کرلیا کہ ایک اور ایک راجپوت کے درمیان امتیاز کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگیاتھا۔

قرن وسطیٰ کی تاریخ۔۔۔۔۔۔۔ ہندستان میں عہد وسطیٰ اس زمانہ کو کہتے ہیں جو قدیم ہندستانی تاریخ کے خاتمہ سے لے کر دورجدید تک باقی رہا،جس کو انگریزی میں (Medieval Period) کہا جاتا ہے۔کیوں کہ قدیم دور کا اختتام ۸ویں صدی عیسوی میں ہو جاتا ہے اور تبھی سے عہد وسطیٰ کا آغاز ہوتا ہے، جو تقریبا۱۰۰۰ سال تک جاری رہا،اور۱۸ ویں صدی عیسویں میں اس کا خاتمہ ہوا۔اس طرح سے ہندستان کی تاریخ تین ادوار پرمشتمل ہے،اورہر دور ایکدوسرے سے علاحدہ ہے،عہد قدیم میں یونان اور چینی اثرات تو ہندستان کی سرزمین پر ظاہر ہوئے مگر پورے طور پر ہندستان ہی کہ لوگوں نے یہاں حکومت کی اور پورے ہندستان کو مقامی تہذیب،ثقافت ،آرٹ ،فن تعمیر اور مذاہب کے پیش نظر آگے بڑھایا۔لیکن عہد وسطیٰ میں ترکی ،عرب،افغان،مغل اور ایرانی اثرات ہندستانی سرزمین پر اس قدر نمایاں انداز میں سامنے آئے جس سے چشم پوشی ممکن نہ تھی،یہ بیرونی طاقتیں کسی نہ کسی وجہ سے ہندستان کی سرزمین پر آئیں اور واپس نہ گئیں،اور کچھ ہی عرصے میں اس ملک کو انھوں نے بھی اپنا وطن تسلیم کرلیا۔اس طرح سے ایک نئی دور اور ایک مشترکہ تہذیب کی بنیاد پڑی۔(بحوالہ ہندستانی تاریخ وثقافت اور فنون لطیفہ،ازعتیق انور صدیقی ص نمبر ۳۷)

عہد وسطیٰ نہ صرف شمالی ہند بلکہ کسی حد تک پورے ہندستان کے سماجی نشوونما کے مطالعے کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے،مورخین کے مابین تاریخ ہند کے تقسیم ادوار کو لیکر کافی کشمش ہیں ،لیکن ہم اس بحث میں جانا نہیں جاتے کیونکہ ہماری خواہش کسی ایک رائے سے بحث یا کسی ایک تقسیم کو قبول کرنے کی نہیں ہے۔ایک سماجی ڈھانچے کے لیے ان اصطلاحات کا استعمال کرنے سے ہے ،جس میں ہزاروں سال سے کوئی اہم مادی تبدیلی نہ ہوئی ہو۔ تاریخی پس منظر کے واضح ہونے کے بجائے انتشار کا زیادہ امکان ہے۔ہندستان کے سماجی نشوونماکے زمانے خواہ انھیں ہم کسی نا م سے پکاریں تاریخی دستاویزات کی روشنی میں کم و بیش یکساں خصوصیات کی حامل ہیں ،حتیٰ کہ موجودہ زمانے تک جب کہ سماجی بنیادوں میں اساسی تبدیلی رونما ہوچکی ہے کافی حد تک وہی قدیم طریقہ باقی ہے۔

معاشرہ علم ادب کے گہوارے میں۔۔۔۔۔۔۔ ہر معاشرہ اپنی تہذیب و تمدن کے حوالے سے علم وادب کا گہوارہ ہوتاہے،ادیب اور شاعر اس معاشرہ پہ گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ آئندہ آنے والے حالات اور بیت جانے والے واقعات کے گرداب میں بھی چکرکاٹتارہتاہے،شاعر اورادیب کا احساس اتنا گہرادوراندیش کا حامل اور حقیت پر مبنی ہوتا ہے کہ زمانہ سمندرمیں غوطہ کھاتا ہے۔ مذہبی رواداری سے معاشرہ کا وجود اپنے عروج پر ہوتا ہے،عہد وسطیٰ میں اس کی مثال کثرت سے ملتے ہیں،حکومت سے قطع نظر مسلمانوں کے بیشتر مذہبی طبقے ہندوؤں کی مذہبی آزادی میں دخل اندازی کو روانہیں رکھتے تھے،اس طرز فکر کا آئینہ دار خواجہ نظام الدین اولیاء اللہ کا وہ واقعہ ہے جو تذکروں اور تاریخوں میں ملتا ہے۔ ایک دن صبح کے وقت وہ اپنے جماعت خانے کی چھٹ پر امیر خسرو کے ساتھ ٹہل رہے تھے نیچے نظر پڑی تو دیکھا کہ دریائے کے کنارے کچھ ہندو بتوں کی پوجا میں مصروف ہیں ۔فرمایا 

’’ہر قوم راست راہے دینے و قبلہ گاہے‘‘
اس مصرعے میں مذہبی رواداری کا ایک بے پایاں جذبہ سمٹ آیا ہے ایک ایسے دور میں جب مسلمانوں کا سیاسی اقتدار اپنے نصف النہار پر پہنچ گیا تھا،ایک مذہبی پیشواہ کا یہ بے ساختہ ارشاد صرف مذہبی رواداری کی نہیں بلکہ ایک ایسی فکر کابھی آئینہ دار ہے جس نے ہندستان کی تہذیب کے جلوۂ صد رنگ کو سمجھا لیا ہو اور جو یہاں کے تہذیبی نقشے میں’’ہر دین‘‘ اور’’ قبلہ گاہ‘‘ کو دیکھنے کے لیے تیار ہو۔
(بحوالہ سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات،ازخلیق احمد نظامی ص ۔نمبر ۷۳)

دکنی ،گجری اور بھگتی ادب میں معاشرتی اتحاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔عہد وسطیٰ کے اوائل میں جب ہم معاشرہ کی بات کرتے ہیں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ جب مسلم حکومت پورے شباب پر تھی تو ہندوؤ ں کو مکمل آزادی تھی انکے مذہبی عقائد و رسوم، فلسفہ و افکار کو سمجھنے کی پوری کوشش کی جاتی تھی ۔بہت سے مسلم اکابرا ورعلماۂندو مذہب کے فلسفے کو سمجھنے کی پوری کوشش کرتے تھے،ہندو مذہب کی نشرواشاعت کا بھگتی تحریک کھلا ثبوت ہے کہ ملک بھر میں بغیر کسی پابندی کے ہندو مذہب پھیلتا رہا۔کبیر ،نانک اور سندرداس وغیرہ کے کارنامے اس زمانے کے آئینے میں دیکھے جاسکتے ہیں ،اس عہد میں ہندو برہمن عالم مسلمانوں کو درس بھی دیتے تھے۔اس طرح سے ادب میں بھی اس کا بہت زیادہ اثر ہوا اور ایک سماج دوسرے سماج کے اچھائیوں کو اپنارہی تھی ،اسی دور میں جب کہ بھگتی تحریک اپنے عروج پر تھی جس میں صوفی عوام الناس کو انسان اور انسانیت کا درس دے رہے تھے، اور ایک طرح سے معاشرہ کوربط و تسلسل کا ذریعہ بنا رہی تھی ،یہ وہ تحریک ہے جس نے انسان کو ایک حقیقی انسان بنے کا موقع دیا اور انسان اپنی پہچان بنا سکا۔ بھگتی تحریک کا آغازہی اس چیز سے ہوا جو معاشرہ کی بنیاد اور ضروری ہے یعنی محبت،عقیدت ،خلوص ،اخوت اورامن کے مسلک کے طور پر ہوا،قدیم اور جدید ہندو و مسلم تہذیب کے دو چشموں کے سنگم سے قرن وسطیٰ کے ہندستان میں اس تحریک کا آغاز ہوا،بھگتی محبت کے جذبے سے ذاتِ کبریاکے آگے سر نگوں ہونے کا نام ہے،بھگت تسلیم و رضا سے قربِ خداوندی حاصل کرتا ہے اور جذبے کی داخلی حدت سے خدا کو ارضی صورت میں منتقل کرکے اس کے آگے سر بہ سجود ہوجاتاہے،اس لحاظ سے بھگتی تحریک کا جذباتی زاویہ پیش کرتی ہے۔ اس تحریک نے اس دور کے معاشرہ کو ایک طرح سے جھنجھوڑ دیا ،اور معاشرہ میں اعلیٰ اور ادنیٰ کے درمیان مساوات کاکام کیا ،اخوت و بھائی چارگی کا فروغ ہوا،عدل و انصاف کا بول بالا ہوا، جس سے ایک مثالی سماج کا جو خواب تھا وہ پوراہوتا ہوا نظر آیا۔کبیر کے دوہوں میں اس کی جھلک ملتی ہے چنانچہ کبیر کہتاہے۔

کبیر سریر سرائے ہے کیا سوئے سکھ چین
سوانس نگارہ کوچ کا باجت ہے دن رین
ماٹی کہے کمہار کوں تو کیا روندے موہے
اک دن ایسا ہوویگا میں روندوں گی توہے
کبیر کے علاوہ داوؤد،میرا بائی ،سنت تِکارام ،بھگت سورداس ،نام دیو ،پریم ننداور تلسی داس وغیرہ ہیں ،جنہوں نے ادب اور اخلاق کے ذریعے سے بھی اس کا م کو خوب پھیلایا،ادب کے ذریعے اس معنی کے صوفیوں نے کتابیں ،رسائل ۔ملفوظات لکھیں اس دور کے صوفیوں میں اگر دبستان دکن کے طرف جائیں تو ہم کو جمیل جالبی کے مطابق علاء الدین خلجی کی فتح دکن سے بہت پہلے ہمیں ایسے بزگان دین کے نام ملتے ہیں جو دکن کے مختلف علاقوں میں خاموشی سے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں ،حاجی رومی،سید شاہ مومن ،بابا سید مظہر عالم،شاہ جلال الدین گنج رواں،سید احمد کبیر حیات قلندر،بابا شہاب الدین وہ چند برگزیدہ شخصیتیں ہیں جو سرزمین دکن پر تبلیغی و روحانی کام کررہی ہیں۔علاء الدین کے فتح کے بعد اس کو اور فروغ حاصل ہوااور یہاں ہمیں میر مقصود،پیر جمنا،شاہ منتخب زری بخش ،پیر مٹھے ،حضر ت گیسودراز کے والد سید یوسف شاہ راجو قتال ،شاہ برہان الدین غریب،شیخ ضیاء الدین اور بہت سے دوسرے صوفیائے کرام دکن کے مختلف علاقوں میں سجادہ بچھائے درستی اخلاق و تبلیغ دین میں مصروف نظر آتے ہیں ۔(بحوالہ تاریخ ادب اردو ،جلد اول از ڈاکٹر جمیل جالبی ص نمبر ۱۱۹،۱۲۰،)
ان بزرگان دین اور صوفی سنتوں نے اپنی اپنی تحریروں اور رسائل میں اس بات کا خیال رکھا کہ ادب کے ذریعہ سے معاشرتی اتحاد قائم کی جائے ،چنانچہ انہوں نے ایساہی ہے کیا اور ان کی کتابیں اس کا غماز ہیں۔مثال کے طور پر’’ سنت پنتھی رسائل‘‘ محمد عرف ست گرو کی،’’جواہر اسراراللہ‘‘جیو گام دھنی کی،’’خزائن رحمت اللہ‘‘ شیخ باجن کی،’’خوب ترنگ‘‘ شیخ محمد چشتی کی،ان کے علاوہ خوش نغز،مرغوب القلوب وغیرہ ہیں۔
معاشرتی سطح پر یہ ایک ایسا کام تھا جس نے اس دور کے اد ب کو بہت زیادہ متاثر کیا،اور ادب میں اس چیز کو بہت فروغ ملا جس نے ایک نئی معاشرہ اور اچھی معاشرہ کی بنیاد میں اہم کردار حاصل کیا۔ اس طرح سے جب ہم اس دور سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو یہ وہ دور ہے جس میں تغلق حکومت کا عروج اور خلجی حکومت کا خاتمہ نظر آتا ہے اس عہد میں علاقائی سطح پر معاشرہ مستحکم ہوتا نظر آیا۔اور ہندستانیوں نے ایران،عربی،ترکی،افغانی نیز وسط ایشیا کے تہذیبی اور معاشرتی اثرات کو بھی قبول کیا،جس کا اثر یہ ہواکہ روز مرہ کی زندگی کے علاوہ آرٹ،ادب اور زبان پر بھی دونوں تہذیبوں کے اثرات نمایاں ہونے لگے ،سلطان دہلی نے ہر ہندستانی کو اس کی زبان ،مذہب ،اور رسم ورواج کی ادائیگی کا پورااختیار دیا،جس کے نتیجے میں ایک مثالی معاشرہ سامنے بن کر ابھرا،یہی وہ دور تھا جب دکن میں خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں اور ان حکومتوں کے زیر اثر معاشرہ ادب اور علاقائی سطح پر بام عروج تک پہونچا،خاص کر اگر ہم ادب کے حوالے سے بات کریں تو ہم کو معلوم ہوگا کہ گولکنڈہ اور بیجاپور کی ریاستیں تھی جس نے ادب میں معاشرہ کو جگہ دی اور علاقائی سطح پر اس کو فروغ دیا،بادشاہ خود اس کی نگرانی کرتے تھے۔شعرا ادباء اور عمائدین قوم اس پر عمل کرتے تھے اور ایک مثالی معاشرہ کا جو جو تصور ہو سکتا تھا اس کو ادب میں اس دور کے ادباء نے پیرویا ہے، اس کی مثال دکن کی مثنویوں ،داستانوں،مرثیوں،اور شاعری میں ملتی ہے۔دراصل دیکھا جائے تو ادب اور معاشرہ ایک دوسرے سے مربوط ہے مولانا حالی کی نظر میں شاعری معاشرے پر اور معاشرہ شاعری پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اسی تقاضہ کو اس سے پہلے کے ادباء نے اپنے اپنے تحریروں میں پیش کیا ہے،چاہے وہ نصرتی ،غواصی ،ملا وجہی،ولی،ابن نشاطی ،اوراس عہد کے بادشاہوں نے بھی اس کو اپنے اپنے دواوین میں فرو غ دیا،اور اپنی تحریروں میں ہندستانی معاشرہ،ہندستانی کردار،یہاں کا رہن سہن ،کھانا پینا غرض کہ ہر اس چیز کو بیان کیا جس سے ایک مثالی معاشرہ معرض وجود میں آتاہے،ولی دکنی فرماتے ہیں کہ۔
صحبت غیر موں جایا نہ کرو 
درد منداں کوں کڑھایا نہ کرو 
حق پرستی کا اگر دعویٰ ہے 
بے گناہاں کوں ستایا نہ کرو 

معاشرتی اتحاد امیر خسروکی زبان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلطنت عہدمیں ادب میں معاشرتی اتحاد پر بہت زیادہ زور دیا گیا۔ بادشاہوں نے اس پر خود اپنے اپنے درباروں میں کام کیا ،دکن کے ساتھ شمال میں بھی ادب کے ذریعے اتحاد معاشرہ کے فروغ میں بادشاہوں اور خاص کرادیبوں اور شاعروں نے اس کے فروغ خوب طبع آزمائی کی، اس کڑی میں امیر خسرو کی ذات سب سے اعلیٰ نظر آتی ہے ،امیر خسرو نے اپنے دوہوں ،کہ مکرانیوں،پہلیوں اور غزل میں اس کو نمایاں کیا ہے ،عوام الناس کی زبان میں شاعری کی،عوامی ادب اور معاشرتی اتحاد کو شعری پیکر میں صفحہ قرطاس پر اتارہ۔ 

امیرخسرو نے اگرچہ اپنی شاعری کا بیشتر حصہ فارسی میں قلم بند کیاہے، لیکن ان کی اُردو یا ہندوی شاعری اس لحاظ سے ایک بے مثال مرتبہ رکھتی ہے کہ اس میں ہندوستانی تہذیب وثقافت اور معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو نہایت فن کاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ خسروؔ نے اپنے کلام کو فارسی اور اُردو، برج،اورکھڑی بولی کے امتزاج سے ایک منفرد تزئین اور نقاشی سے سنواراہے۔امیر خسرو نے ننانوے تصانیف تخلیق کیں اور ان کا بیشتر کلام زبانِ شیراز ہی میں موزوں ہوالیکن بقول علی جوادزیدی خسروؔ اپنی فارسی سخن گوئی میں بھی مادروطن کے ایک حساس فرزند کی حیثیت میں نغمہ سرا ہیں۔عظمتِ ہند، اس کے عوام، بدلتے ہوئے جغرافیائی مناظر، مہکتے ہوئے گل وگلزار، تناور درخت اور رواں دواں ندیاں اور دریا ان کے محبوب موضوعات میں شامل ہیں۔انہیں اپنے ہندوستانی ہونے پر ناز تھا اورہندوی ہی ان کی زبان تھی:
ترک ھندستانیم من ھندوی گویم جواب
شکر مصری ندارم گزعرب گویم سخن 
فارسی اور ہندوی کی ممزوج غزل کا یہ بے مثال نمونہ امیر خسرو ہی کا خاصہ ہوسکتاہے:
زحال مسکیں مکن تغافل دوراے نیناں بنائے بتیاں 
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ 
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں 
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں 
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں 
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر 
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں 
بحق آں مہ کہ روز محشر بداد مارا فریب خسروؔ 
سپیت من کے دوراے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
ہندوستان کی ہر شے اور بالخصوص ہندوستانی حسن کے تئیں امیر خسرو کی والہانہ محبت کا جوعالم تھا سید صباح الدین عبدالرحمان نے شاعرانہ الفاظ میں اس کی توضیح کی ہے۔ ان کو چینؔ کا حسن بھی نہیں جچا کیونکہ ان کے معیار کے مطابق اس میں عجز وانکسار نہیں۔تاتاری حسینوں کے لبوں پر ہنسی نہیں دکھائی دیتی اور ختن کے حسینوں کے چہرے پر نمک نہیں ہوتا۔ سمرقند اور قندھار کے حسن میں مٹھاس یعنی قند کی کمی ہے۔ اسی طرح مصر اور روم کے سیمیں بدن حسینوں میں وہ چستی اور چالاکی نہیں پاتے۔خسروؔ کو ہندوستان کے حسن میں یہ ساری خوبیاں دکھائی دیتی ہیں یعنی عجز وانکسار بھی، لبوں پر تبسم بھی، چہرے پر نمک بھی، شیرینی بھی، اداؤں میں چستی اور چالاکی بھی۔اسی لیے بے اختیار ہو کر کہتے ہیں:
بتانِ ہند را نسبت ہمیں است
بہریک موئے شاں صد ملکِ چین است
امیر خسرو نے ہندوی یا ہندوستانی میں شاعری کسی تفریح یا تفنن کے لیے نہیں کی، بلکہ ان کی اس شعوری کوشش اور تجربے کا ماحصل اس ایک نئی زبان کی ابتداء میں دیکھاجاسکتاہے، جسے ابوالفضل نے دہلوی کا نام دیا اور پھر جسے لوگوں نے ریختہ کی حیثیت میں پہچانا ،اور جو بالآخر اُردو کی شکل میں تختِ دہلی کی سرکاری زبان بن گئی۔گوپی چند نارنگ کے الفاظ میں ہندوستان کے عاشق صادق اور سچے وطن پرست تھے۔اپنی شاعری میں جہاں جہاں امیر خسرو ہندوستان کی تعریف کرتے ہیں ان کی روح وجد میں آجاتی ہے اور جیسے ان کے منہ سے پھول جھڑنے لگتے ہیں۔
ہندوستان کے موسموں، تیوہاروں اور رسومات کے بارے میں خسرو نے فارسی اور ہندوی میں جو کچھ لکھاہے وہ ان کے لاتعداداشعار پر مشتمل ہے۔ امیر خسرو نے اپنی۷۲سالہ زندگی میں کئی انقلابات دیکھے جوسلطنتوں اور حکومتوں کے عروج وزوال کا باعث بن گئے۔ ان واقعاتِ زمانہ سے بے نیاز حضرت خسرو نے صرف اپنی صوفیانہ اور ادبی زندگی ہی کو اپنے ذوق وشوق کا مرکز بنالیا۔ ان کا فلسفہ تصوف ان کے فکر وفن کے اظہار کا ایک بہت بڑا منبع ہے۔ خسرو کی شاعرانہ صلاحیتوں کا نکھار اور جلال ان کی اسی شاعری میں ابھر کر سامنے آجاتاہے جس میں انہوں نے اپنے ملک ہندوستان اور ہندوستانیت کے گیت گائے ہیں۔خسروؔ کا اسلوب اس حوالے سے ان کے بعد آنے والے ہندوستانی شاعروں سے نہایت الگ تھلگ اور ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے۔اپنے محبوب شہر دہلی میں قیام پذیر ہوتے ہوئے بھی امیر خسرو نے سارے ملک کے اُن ثقافتی پہلوؤں پر خامہ فرسائی کی ہے جن کا ذاتی اور عملی تجربہ کئے بغیر ان کی صحیح تصویر کشی کرنا بصورت دیگر ناممکن نظر آتاہے۔ یہی خسرو کے فن اور نکتہ بین نگاہ کی جولانیوں کا کمال ہے۔
امیر خسروؔ قدیم وجدید ہندوستان کی ادبی زندگی میں ایک مقبول نام ہے جسے یہ خطہ ارضی ابوالحسن یمین الدین کے اصلی نام کی بجائے امیر خسرو ہی کے نام سے جانتاہے۔وہ اپنے عہد کے اعلیٰ پایہ کے سخن گو، موسیقار، موجد،فلسفہ دان،ماہر لسانیات او رعظیم درجہ کے صوفی تھے۔جنہوں نے اپنی شاعری سے ہندستانی معاشرہ کی کا یا پلٹ دی اور مثالی معاشرہ کی بانیوں میں سرفہرت میں اپنا نام در ج کرایا۔

مغل ادب میں معاشرتی اتحاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلطنت دہلی کے بعد کے حکمراں مسلم تھے جس کا اثر یہاں کے معاشرہ میں اس کا اثر عیاں ہوتا ہے،لیکن معاشرہ ایک کامیاب منزل کے طرف گامزن تھا،سلطنت دہلی کے بعد ابراہیم لودھی کو پانی پت کی میدان میں ظہیرالدین محمد بابر شکشت دیتا ہے اور ایک نئی حکومت کی بنیاد ڈالتا ہے جس کو ہم مغلیہ سلطنت کے نام سے جانتے ہیں ۔عام طور پر مغل معاشرہ اور اس کی ثقافت کو دربار کی شان و شوکت مغل حکمرانوں کے جاہ و جلال اور امراء کی خوشحالی سے جانچا پرکھا اور دیکھا گیا ہے، اور اسی وجہ سے مغل دور حکومت کو ہندوستان کی تاریخ کا سنہرا دور کہا گیا ہے، اس سنہرا دور کی نشانیاں آج تک محلات، باغات، قلعے، دروازے اور بارہ دریوں کی شکل میں موجود ہیں جو عظمت رفتہ اور قصہ پارینہ کی یاد دلاتی ہیں۔ اس طرح جب ہم تاریخوں میں مغل دربار کی رسومات تفریحات ،تہواروں ،جشنوں اور جلوسوں کی شان و شوکت کے بارے میں تفصیلات سے پڑھتے ہیں تو ذہن یہی تصور قبول کرتا ہے کہ مغلوں نے ہندوستان کو عظمت کی بلندیوں تک پہنچایا،اور عالم اقوام میں اس کو ایک منفرد مقام عطا کرایا ،مغل دور حکومت میں حکمران طبقے کی خوشحالی کے ساتھ ہی شاعروں ،ادیبوں اور مورخوں کی سرپرستی کی جاتی تھیں، موسیقی ورقص کی محفلیں منعقد ہوتیں تھیں،جمالیاتی احساسات کی تکمیل کے لئے مصوری کو ترقی دی جاتی تھی، یہ تمام سرگرمیاں معاشرہ کی ایک اعلی ثقافت کو جنم دیتیں ہیں۔ 

ہندستان کے حکمران کی حیثیت سے سلاطین دہلی اور بعد میں مغل بادشاہوں کے لیے ایک اہم مسئلہ تھا ،کہ کیا یہاں شریعت کا نفاذ کرکے اسلامی حکومت قائم کی جائے؟یا سیکولر بنیادوں پر مذہبی رواداری کے ساتھ حکومت کی جائے؟مسلمان طبقوں کے میں ان دونوں نظریات کے درمیان تصادم اور معاصرانہ چشمک رہاہے۔ 
ایک روسی تاریخ نویس یوجینیاوانینا نے اپنی کتاب Ideas and Society in India from the Sixteenth to the Eighteenth Centuries,1996 میں تین صدیوں میں ہونے والے ان نظریات و افکار کے باہمی تصادم کی تاریخ کو بیان کیا ہے، جس سے ہندستانی معاشرہ دو چار تھا،اس نے خاص طور سے ان روشن خیالی اور ترقی پسند نظریات کا تجزیہ کیا ہے جو اکبر کے عہد اور شاہی سرپرستی میں ابھرے،اورہندستانی ذہن کوبدلنے کی کوشش کی ،پھر ان نظریات کا ذکر ہے کہ جو عوامی سطح پر ابھرے اور جنہوں نے قدامت پرستی،مذہبی جنونیت،اور تنگ نظری کو چیلنج کیا۔(بحوالہ تاریخ اور تحقیق ،از ڈاکٹر مبارک علی۔ ص نمبر۳۴،ا)
اکبر کے عہد میں ابوالفضل ایک ایسا دانشور ،مفکر اور فلسفی تھا جس کا ہندستانی معاشرہ کو تبدیل کرنے کا ایک وژن تھا،اکبر نے ایک حکمران کی حیثیت سے اس کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ،ابوالفضل نے ’’آئین اکبری‘‘میں بادشاہت کا جو نظریہ پیش کیا ہے اس کی تہ میں بڑے انقلابی عناصر کار فرماہیں،اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جو نظریہ ابوالفضل نے پیش کیا ہے اس میں روایتی اسلامی اور ہندو بادشاہت کے نظریات نظر آتے ہیں،لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ابوالفضل کے مطابق ایک حق پرست اور سچابادشاہ آفاقی سچائی اور نیکی کی غرض سے حکومت کرتا ہے،اس لیے وہ مختار ہے کہ قدیم روایات اور اداروں کو تبدیل کرے،یہی وہ بنیاد تھی کہ جس پر اکبر نے عمل کیا اور غیر انسانی اور معاشرتی عمل جس کو کہ ایک اچھا اور مثالی معاشرہ ناگوار سمجھے اس کی انہوں نے ممانعت کر دی ،اس طرح سے ریاست نے پہلی مرتبہ ان معملات میں دخل دیا جو اب تک روایتی طور پر برادری،ذات اور خاندا ن کے حدود میں تھے۔
اسی لئے جب ہم دور اکبر کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ اکبر کوجو نظریہ ابوالفضل نے دیا کہ سب کا خدا ایک ہے ،صرف نام مختلف ہیں اور سارے خدا کے بندے ہیں۔لہذا بادشاہ اکبر کو چاہے کہ وہ مخلوق خدا کے ساتھ مساوی بنیادوں پرسلوک کریں،اسی کا م کو اکبر نے اپنایا اور ایک مساوی معاشرہ کی بنیاد ڈالی ،تراجم کے ذریعے بھی اس کو فروغ دیا گیا اورایک دوسرے کے معاشرہ سے آشنا ہونے کا موقع ملا ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سنسکرت سے فارسی اور فارسی سے سنسکرت میں بہت زیادہ ترجمہ ہوئے، یہ ہو اکہ ۔،جس کا اثر یہ ہو اک عہدِاکبری میں( ایک معاشرہ جس کا شمار کہیں نہیں ہوتاتھا) وہ معاشر ہ اپنی تمام تر خوبیوں سے لبریز ہوتا ہوانظر آتاہے،اتحاد و یگانگت کی مثال بن جاتی ہے،یہ معاملہ کچھ سالوں تک چلاپھر وہ دور آیا جس میں مغل حکومت کا شیرازہ بکھر گیااور مغل حکومت زوال کے گامزن ہو گئی، جس سے ادب متاثر ہوااور پھر ادیبوں ،شاعروں نے اپنا رخ تبدیل کیا اور اد ب میں مغربیت کا جلوہ اپنی شان و شوکت کے ساتھ نمایاں ہوا۔
 
 

مراجعات

عہد وسطیٰ میں مشترکہ تمدن اورقومی یکجہتی .........................ازمحمود علی۔( مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ جامع مسجد دہلی۔۶) 
 سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات ..............................ازخلیق احمدصاحب نظامی(ندوۃ المصنفین اردو بازار جامع مسجد دہلی) 
ہندستانی معاشرہ عہدِ وسطیٰ میں ...............................از کنور محمد اشرف مترجم قمرالدین۔( نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا،نئی دہلی) 
اردو ادب کی تحریکیں.........................................ازڈاکٹر انور سدید۔(انجمن ترقی اردو کراچی،پاکستان) 
تاریخ ادب اردو،جلد اول....................................از ڈاکٹر جمیل جالبی۔(ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس۔۶) 
ہندستانی تاریخ وثقافت اور فنونِ لطیفہ.......................... ازعتیق انور صدیقی۔( نیشنل میوزیم،نئی دہلی) 
تاریخ اور تحقیق.................................................از ڈاکٹر مبارک علی۔( فکشن ہاؤس ،مزنگ روڈ لاہو ر پاکستان) 
ماہنامہ اردو دنیا،مارچ ۲۰۱۴................................. .مدیر خواجہ محمد اکرام الدین(قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان۔نئی دہلی)
 

Monday 24 September 2018

              دور حاضر میں اردو کی بدلتی صورت

            



اکیسویں صدی کے ہندوستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی سماجی زندگی کے سبب سیاسی نظریات میں بہت سی تبدیلیاں آئیں، آج ہندوستان کی سیاسی سماجی اور تہذیبی زندگی بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ ماضی کے بہت سے سماجی اور سیاسی رویّے از کار رفتہ ہو چکے ہیں۔ بدلتے ہوئے اقدار، زندگی کے تمام شعبوں میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ امر بدبختانہ ہے کہ آزادی کے ۷۰برس بعد بھی ہمارے ماہرینِ علم و ادب نوآبادیاتی دور کی ذہنیت سے پیچھا نہیں چھڑا سکے اور ہندوستان کی اُبھرتی ہوئی تازہ حقیقتوں کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہے۔ہندوستان میں اردو ایک ایسا مسئلہ رہا ہے جسے کسی نے بھی سلیقے سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔آج جب کہ کم عمر کہلانے والی اردو زبان نے ایک طویل فاصلہ طے کرلیا ہے، ایک تابناک ماضی اس کی قسمت کا حصہ رہ چکا ہے، ایک شاندار دور اس کے ارتقائی سفر کے گرد راہ ہے، تو ایک بار پھر ہمیں از سر نو اس کی تاریخی روایت اوراس کے تابناک ماضی کی طرف مڑ کر دیکھنا ہوگا اور یہ جائزہ لینا ہوگا کہ موجودہ عہد میں یہ زبان کس مقام پر ہے، کیا موجودہ دور کو اردو کے لیے ترقی یافتہ دور کہاجاسکتاہے؟ یا پھر ترقی پذیر دورسے ہی تعبیر کیا جائے گا۔
ایک طرف تو دور حاضر کے ادب شناس اور اردو زبان وادب کے علمبردار مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اردوزبان ہنوز ترقی پذیردورمیں ہے، اور ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں مسلسل سرگرداں ہے۔نیز ملک کی بعض ریاستوں میں اردو کو سرکاری سطح پر دوسری زبان کا درجہ ہونے کی دہائی بھی دی جارہی ہے، علاوہ ازیں سیاست دانوں کی طرف سے اردو کے ایک مہذب زبان ہونے کی قصیدہ خوانی بھی ہو رہی ہے، اور اردو کی تہذیبی سروکار کی ستائش بھی۔
ادھرایک طویل عرصے تک اردو اور دوسری ہندوستانی زبانوں سے متعلق بے کار بحثیں ہوتی رہیں۔ یعنی ادنیٰ سطح پر جو نوآبادیاتی دور کی سطح سے بلند نہ ہوئیں۔ ان میں کوئی گہرائی نہیں تھی۔ تکرار اس پر ہوتی رہی کہ اردو مسلمان حملہ آوروں کی زبان ہے۔ یہی ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کی ذمّے دار ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہندوستانی سماج میں عوام کا جو بنیادی تعلق اس زبان سے تھا اس موقف کو اس سے چھین لیا گیا۔ ایک کوتاہی اس زبان کے بولنے والوں کی بھی رہی کہ اس زبان کو انھوں نے آرٹ اور ادب تک محدود کر دیا۔ اس کے علاوہ ممبئی کی فلمی دنیا میں عام طور پر اردو زبان کو لے کر مسلمانوں کا مذاق اڑایا گیا۔ اردو زبان اور مسلمانوں کے کلچر کی جو تصویر کھینچی گئی اس نے بھی بدگمانیاں پیدا کیں۔ قوالی، مجرہ اور مشاعرہ اس زبان کی پہچان بن گئے۔ اس طرح آزاد ہندوستان میں اردو کو عام استعمال کی زبان نہ سمجھا گیا۔ اس کا فائدہ حکومت کو بھی اپنے خزانے کی بچت سے ہوا۔
ہندوستان کثیر زبان رکھنے والا ملک ہے، جہاں بے شمار علاقائی زبانیں و بولیاں بولی جاتی ہیں، اور ہر زبان وبولی اپنے محدود خطہ وعلاقہ کی پہچان تصور کی جاتی ہیں، زبانوں و بولیوں کی اس بھیڑ میں کئی ایک زبانیں ایسی بھی ہیں جو اپنے محدود دائرہ سے نکل کر ملک گیر سطح پر اپنی شناخت کو دوبالا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، اور ان کے چاہنے وماننے والے اپنے خلوص وجذبہ سے اپنی زبان کو ایک نئی جہت دینے میں مصروف ہیں۔زبانوں کے اس جم غفیر میں اگر اردو کے حوالے سے گفتگو کی جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان کی بعض ریاستوں نے اردو زبان کو دوسری زبان کا درجہ دے کر وسیع القلبی کا ثبوت دیا ہے، تو کیا اس وسیع وعریض ملک میں جہاں ۲۹ ریاستیں اورسات یونین ٹریٹریز آباد ہیں اردو کے ساتھ انصاف ہو رہا ہے؟ اور اگر ان ریاستوں کا احسان تسلیم کرلیا جائے جنہوں نے اردو کو دوسری زبان کا درجہ دیا ہے، تو کیا وہاں کی حکومتیں اردو کے منصب ومقام کو پہچاننے کی سعی کر رہی ہیں؟ کیا ملکی حکومت نے بھی کبھی اردو زبان کی وقعت کو سمجھا ہے؟ کبھی اس کو جائز مقام ومرتبہ دینے کی کوشش کی ہے؟ کبھی اس کے فروغ و ترقی کے لیے صحیح سمت و راہ متعین کرنے کی جدوجہد کی ہے؟ کبھی اس کے حقوق کی پاسبانی کی ہے؟
ظاہر ہے ایسے سوالات اب بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں، کیونکہ کچھ ریاستوں کے دستور نے اس زبان کو دوسری زبان کا درجہ ضرور دے دیا ہے، لیکن حکومتوں نے اس کا دائرہ صرف اور صرف کاغذی سطح تک محدود کردیا ہے۔ اور اگر اردو کی ترقیاتی کاموں میں حکومت کی پالیسیوں کا ذکر کیا جائے تو بھی حکومتی ادارے ہندوستان میں بولی جانے والی دوسری زبانوں کی طرح اردو کے فروغ کے لیے اتنی کوشاں نہیں، ہندوستان کی موجودہ سیاسی وسماجی صورت حال میں جبکہ اردو زبان کو ایک مخصوص قوم کی زبان کے طور پر دیکھا جارہا ہو، اس کی پرورش وپرداخت نفرت کے سائے میں ہو رہی ہو، ایسے میں یہ دعوی نہیں کیا جاسکتا کہ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے افسران اردو کے تئیں اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، یا جتنے مواقع ہندوستان کی دوسری زبانوں کو دئے جاتے ہیں، اردو کو بھی دی جاتی ہے۔ پوری اردو قوم ان بھیانک حقائق سے بخوبی واقف ہے، اس بات کا احساس ہے کہ اردو مسلسل سازش کا شکار ہورہی ہے، آئے دن اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں، دن بدن اس کی ترقی کی راہوں کو مسدود کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک بات اردو کو ’’دوسری زبان‘‘ کا درجہ دینے کا ہے تو یہ محض خواب آور گولی ہے، جس کے نشے میں اردو داں طبقہ بہت دنوں تک نہیں رہ سکتا۔
یہ مقام افسوس تو ہے ہی کہ ہندوستان کی سب سے شیریں زبان جس کادعویٰ آج سے نہیں بلکہ اس کے خمیر اٹھنے کے وقت سے ہی نہ صرف اپنے بلکہ اغیار بھی کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود اردو دشمن افراد پیٹھ پیچھے خنجر بھونکنے کے کارناموں کو بھی بخوبی انجام دیتے رہے ہیں۔ اس زبان کا سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ان حالات میں بھی اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے اردو کے بہی خواہ، اور اس کی الفت کا دم بھرنے والے افسر شاہ قسم کے لوگ اپنے بلند وبانگ دعوؤں سے باز نہیں آتے، اور ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں جنہیں انہیں فاش کرنا تھا، اپنے خوبصورت اور بلند آہنگ جملوں سے اردو داں طبقہ کو پُرفریب وادیوں کی سیر کراتے رہتے ہیں، اپنے جاہ ومنصب کا غلط استعمال کرکے اردو کی زبوں حالی پر مسلسل پردہ پوشی کرتے رہتے ہیں، ان حالات میں بھی ایسے افراد کو اردو کا محب و راہبر تصور کیا جاتا ہے، کیا ایسے افراد اپنی منافقانہ چالوں سے اردو کو نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں؟ یہ مسئلہ بحث چاہتا ہے۔
یہیں سے یہ بحث بھی نکل کر سامنے آتی ہے کہ موجودہ دور میں اردو زبان کی شناخت کیا ہے؟ ایک سیکولر زبان کی یا کسی مخصوص قوم کی زبان کے طور پر؟ آئے دن اخباروں کے تراشے، مضامین، ناعاقبت اندیش ذمہ داران کے خطابات، ملک کے سیاست دانوں کی تقریریں، اور دوسرے اردو کا بھلا چاہنے والے افراد مسلسل اس بات پر اپنی قوت گویائی صرف کر رہے ہیں کہ اردو سیکولر زبان تھی، اور رہے گی۔اردو کی موت کا اعلان پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے، لیکن یہ زبان جتنی شیریں وسبک ہے، اتنی ہی سخت جان بھی، کیونکہ لاتعداد دشواریوں سے آنکھیں چار کرتے ہوئے وسائل کے فقدان کے باوجود آج بھی سانس لے رہی ہے۔ بعض اہل نظر افرد کا یہ خیال ہے کہ زبانوں کی ترقی میں وسیلۂ روزگار سے زیادہ جذبہ کی کارفرمائیاں ہوتی ہیں، لیکن اردو کے لیے تو یہ دونوں چیزیں برائے نام رہ گئی ہیں، وسیل? روزگار سمٹتا جارہا ہے، اور جوش وجذبہ کا فقدان مسلسل جاری ہے، اس کے باوجود اردو زندہ ہے، اور بساط بھر اپنی خوشبوں سے لاتعداد ذہنوں کو معطر کر رہی ہے یہ خوش آیند بات ہے۔
اس تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو ترقی یافتہ نہ سہی، لیکن زندہ ضرور ہے، یہ بات اور ہے کہ اردو کئی مہلک اور خطرناک امراض سے مسلسل جوجھ رہی ہے، جن میں سب سے اہم بیماری منافقت و گروہ بندی ہے، جو خود ہمارے اپنے گھر کے افراد میں موجود ہے، اور تاریخ گواہ ہے کہ میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگ گھر کا بھیدی بن کر ہمیشہ ہی قوم وملت کے زوال کا سبب بنے ہیں، آج زبان نشانے پر ہے۔اگر ہم اس زبان کی تعمیر و ترقی کے لیے اٹھ کھڑے نہیں ہوے تو ہماری حالت اس مردہ قوم کے مانند ہو جائیگی جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی وقار کو مجروح کیا ،اس لیے ہم کو اس کا کھویا وقار واپس دلانا ہوگا اور اس کو افق چمکانا ہوگا ،تبھی ہم اپنے کو اردو داں کہلانے کے حق دار ہونگے۔

Tuesday 5 December 2017

آغا حشر کاشمیری کی تمثیل نگاری


آغا حشر کاشمیری کی تمثیل نگاری
فروغ احمد
کروڑی مل کالج (دہلی یونیورسیٹی)

مرزا اسد اللہ خان غالب کے بارے میں مولانا مودودی فرمایا کرتے تھے کہ بحیثیت قوم ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ غالب نے اسی میں جنم لیا اور یہ غالب کی بدقسمتی ہے کہ اسے ہمارے جیسی قوم ملی۔ مولانا مودودی دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ زمانے نے ’’مرزا اسد اللہ خان غالب ‘‘کی وہ قدر نہیں کی جس کے وہ مستحق تھے۔ غالب کے بعد اگر یہ بات کسی ادبی شخصیت پر صادق آتی ہے تو وہ برصغیر کے شیکسپیئر’’آغا حشر کاشمیری ‘‘کی ذات ہے۔ ولیم شیکسپیئر کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
راز داں پھر نہ کرے گی کوئی ایسا پیدا

                ولیم شیکسپیئر نے جو کچھ لکھا وہ انسانی نفسیات کے عین مطابق اور اس کو مکمل انداز میں سمجھتے ہوئے لکھا۔اسی طرح آغا حشر کاشمیری نے جب بھی قلم اٹھایا اپنے کرداروں کی سوچ اور جذبات کو یوں بیان کر دیا کہ دیکھنے والے بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے۔’’گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘آغا حشر کو شہرت تو بہت ملی لیکن ان کے فکر و فن کو سمجھنے کی کوشش خالی خالی ہی دیکھنے میں آتی ہے یہ نابغِہ روزگار ڈرامہ نگار اور فی البدیہہ شاعر اگر یورپ میں پیدا ہوتا تو آج اس کے نام پر کئی ادبی تنظیمیں اور ادارے وجود میں آ چکے ہوتے۔ انہوں نے اپنی بے مثال کردار نگاری، لاجواب مکالموں اور فی البدیہہ شعروں سے برصغیر میں سٹیج اور فلم کو ایسی بلندی عطا کی جو ان سے پہلے اور بعد میں کسی ادیب شاعرکے حصے میں نہیں آئی انہیں بجا طور پر برصغیر میں فنِ اداکاری، ڈرامہ نگاری اور مکالمہ نگاری کا اولین لیجنڈ قرار دیا جا سکتا ہے۔
آغاحشرؔ کاشمیری کی حالاتِ زندگی اورشخصیت

              آغا محمد شاہ نام، حشرؔ تخلص، والد کا اسمِ گرامی آغا غنی شاہ تھا۔ آغا غنی شاہ کے ماموں سید احسن اللہ شاہ اور بڑے بھائی عزیزاللہ شاہ شالوں کی تجارت کے سلسلے میں سری نگر سے بنارس آئے اور پھر یہیں مستقل سکونت اختیار کی۔ سید احسن اللہ شاہ نے کچھ عرصہ بعد آغا غنی شاہ کو بھی بنارس بلا لیا اور اپنی سالی سے شادی کر ادی ،اور یہیں آغا حشرؔ کی پیدائش یکم ا پریل 1879 ء کوبنارس میں ہوئی۔
              حشرؔ کے برادرِ خورد آغا محمود شاہ کاشمیری حشرؔ کی پیدائش کے بارے میں لکھتے ہیں ''آغا محمد شاہ حشرؔ یکم ا پریل 1879ء جمعہ کے روز ناریل بازار محلہ گوبند کلاں شہر بنارس میں پیدا ہوئے۔ زندگی بھر انھوں نے اپنی وطنیت کو اپنی ذات سے علیحدہ کرنا پسند نہ کیا اور خود کو ہمیشہ کاشمیری کہتے اور لکھتے رہے''۔
حشرؔ کی عربی وفارسی کی تعلیم گھر پر ہوئی اور انگریزی تعلیم انھوں نے جے نرائن مشن اسکول بنارس میں حاصل کی،آغا حشرؔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ نہ صرف اعلیٰ درجے کے مایہ ناز ڈراما نگار تھے بلکہ باکمال شاعر، شعلہ بیان مقرر اور خطیب بھی تھے۔ ان کی تعلیم تو واجبی ہی تھی مگر ذاتی مطالعے کی بنا پر انھوں نے اردو، فارسی اور ہندی میں فاضلانہ استعداد حاصل کر لی تھی۔ ان زبانوں کے علاوہ انھیں عربی، انگریزی،گجراتی اور بنگلہ کی بھی خاصی واقفیت تھی۔ انھیں مطالعے کا بے انتہا شوق تھا،یہاں تک کہ جس پڑیا میں سودا آتا تھا اس کو بھی پڑھ ڈالتے تھے۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ حافظہ بھی بلا کا پایا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مختلف موضوعات پر بڑے اعتماد اور بے تکلّفی سے گفتگو کرتے خواہ وہ موضوعات ادب سے متعلق ہوتے یا مذہب سے یا سیاست سے۔
          حشرؔ مشرقی تہذیب کے دل دادہ تھے۔ مغربی تہذیب سے انھیں سخت نفرت تھی۔ ملک کی سیاسی اور قوم کی زبوں حالی پر ان کا حسّاس دل تڑپ اٹھتا تھا۔ حب الوطنی اور حصولِ آزادی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ مغربی تہذیب و معاشرت کی تقلید انھیں انتہائی نا پسند تھی۔ ان کے کئی ڈرامے ان نظریات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ حشر ایک طرف مشرقی اقدار کے پرستار اور دوسری طرف جذبہ اسلام سے سرشار تھے۔ ''شکریہ یورپ'' اور ''موجِ زمزم'' ان کی وہ بے مثال نظمیں ہیں جن کا ایک ایک لفظ اسلام سے محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔ یہ نظمیں زبان وبیان، فنّی کاریگری، ادبی لطافت اور ابلتے ہوئے جذبات کا حسین امتزاج اور شاہکار ہیں۔ ان نظموں میں علامہ اقبالؔ کا رنگ غالب ہے۔آغا حشرؔ کے زورِ خطابت اور تقریر کا اعتراف ان کے دوست تو کرتے ہی تھے مگر حریف بھی ان کی قابلیت کا لوہا مانتے تھے''انجمن حمایتِ اسلام'' لاہور کے جلسوں اور بمبئی کی مجالسِ مناظرہ میں روح پرور تقریروں کی بدولت حشرؔ سامعین کے دلوں پر چھاجاتے تھے، مناظروں میں مبلغین اور آریہ سماجیوں کے چھکّے چھڑا دیتے۔ ان مناظروں میں حشرؔ کے ساتھ مولانا ابو الکلام آزاد، سجّادؔ دہلوی، خواجہ حسنؔ نظامی، مولانا ابوالنصرؔ اور نذیرحسین سخاؔ ہوتے جن کے سامنے مخالفین گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتے۔ اسلام کی تبلیغ اور اس کے تحفظ کے لیے آغا حشرؔ نے ہمیشہ مذہبی جوش اورسرگرمی کا ثبوت دیا۔ ''انجمنِ حمایتِ اسلام'' لاہور کے جلسے میں جس وقت انھوں نے ''شکریہ یورپ'' کے مناجات والے بند کا پہلا شعر پڑھا۔

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لا نے کے لیے
بادلو! ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے

تو سامعین کے ہاتھ بے اختیار دعا کے لیے اُٹھ گئے اور آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری ہو گیا۔
                آغا حشرؔ خلیق اور با مروت، وسیع القلب اور وسیع الذہن انسان تھے غرور و تکبّر سے انھیں سخت نفرت تھی۔ سخن فہموں کے قدر دان تھے۔ لطیفہ گوئی اور بذلہ سنجی میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ ان کا کما ل یہ تھا کہ لطیفوں اور چٹکلوں میں خشک سے خشک بحث بھی اس طرح کرتے کہ سننے والا متاثر ہو جاتا۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کا شیوہ تھا۔ ان کے غصے میں بھی پیار تھا۔ حشرؔ گالیاں دینے میں بڑے ماہر تھے۔ حتیٰ کہ مشہور فن کارہ اور گلو کارہ مختار بیگم کو جنھیں وہ اپنی جان سے زیادہ چاہتے تھے گالیاں دینے سے نہ چوکتے۔ اس فن کارہ نے ان کی زندگی اور ڈراما نگاری میں بڑا اہم رول ادا کیا تھا۔ حشرؔ نے ان سے شادی کر کے اپنی بے پناہ محبت کا ثبوت دیا۔ بقول مختار بیگم مرحومہ ''میں جب ان کی زندگی میں داخل ہو گئی تو انھوں نے بتایا کہ میں ساری زندگی اپنے آپ کو مصرع سمجھتا رہا۔ تمھارے ملنے سے شعر بن گیا ہوں، میری نا مکمل زندگی کے ساتھ ساتھ تم نے میری شاعری کو بھی مکمل کر دیا ہے۔ اب میری تحریر اس قدر بلندی پر جا پہنچی ہے کہ مجھے کوئی دوسرا نظر ہی نہیں آتا''۔
             حشرؔ شراب کے عادی تھے لیکن آخری عمر میں انھوں نے منہ سے لگی ہوئی اس کافر کو چھوڑ دیا تھا اور پھر کبھی نہ پی،حشرؔ کی آخری عمر لاہور میں گزری۔ وہ زندگی کے اخیر دنوں میں بیمار تھے اور حکیم فقیر محمد چشتی کے زیرِ علاج رہے جو ان کے عزیز ترین دوستوں میں سے تھے۔ وہ اپنے ڈرامے بھیشم پر تگیا (بھیشم پتاما)'' کو فلمانے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ28! اپریل1935 ء کو پیغامِ اجل آ پہنچا۔ لاہور میں قبرستان میانی صاحب میں سپردِخاک کیے گئے۔ یہیں آغا حشرؔ کی بیوی بھی دفن ہیں۔
       حشرؔ کے انتقال پر ابوالاثر حفیظؔ جالندھری،حکیم محمدیونس،پنڈت نرائن پرشاد بیتابؔ بنارسی اور فرحت اللہ بیگ نے قطعات اور تاریخِ وفات کہی۔ بیتابؔ نے حشرؔ کے فن کی عظمت کا اعتراف اور ان کی وفات پر اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا ہے۔
اے حشرؔ کہ تو رقیبِ فن تھا میرا
آخر مجھے تو نے جیت کر ہی چھوڑا

لکھنے میں تو تھا ہی توٗ ہمیشہ آگے
مرنے میں بھی بیتابؔ سے پیچھے نہ رہا

ناٹک جو لکھا ملک میں مقبول ہوا
فقرہ جو تراشا وہی منقول ہوا


تھا رنگِ زباں بھی اس قدر معنی خیز
اسٹیج پہ تھوکا بھی تو اک پھول ہوا
آغا حشرکی ڈرامہ نگاری
آغا حشرؔ کو ڈرامے سے ذہنی لگاؤ اورطبعی مناسبت تھی۔ان کے دورانِ تعلیم بنارس میں الفریڈ کمپنی پہنچی۔ اس زمانے میں ڈرامے کی دنیا میں میر حسن احسنؔ لکھنوی کا بڑا شہرہ تھا۔ اس کمپنی کے دکھائے گئے کھیلوں میں سب سے زیادہ کامیابی احسنؔ کے ’چندراؤلی‘کوملی۔حشرؔ بھی کھیل دیکھنے جاتے تھے، چنانچہ ان کی سوئی ہوئی صلاحتیں جاگ اٹھیں اور انھوں نے ’’آفتابِ محبت‘‘ کے نام سے اپنا پہلا ڈراما لکھا۔گویا ان کی ڈراما نگاری کے سفرکا یہ آغاز تھا۔حشرؔ نے کمپنی کے مالک کوجب اپنا یہ ڈراما دکھا یا تو اس نے اُسے اسٹیج کرنے سے انکارکر دیا۔ مالک کے رویے اور اس کے انکار کا ردِعمل حشرؔ پر یہ ہوا کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی ڈراما نگاری کے لیے وقف کر دی اور کچھ ہی عرصے بعد وہ اسٹیج کی دنیا پر چھا گئے۔ حشرؔ کا یہ پہلا ڈراما، اسٹیج تو نہ ہو سکا لیکن ’’بنارس کے جواہراکسیر کے مالک عبد الکریم خاں عرف بسم اللہ خاں نے ساٹھ روپے میں خرید لیا اور اپنے پریس میں چھاپ ڈالا۔ متعدد وجوہ ایسی تھیں کہ حشرؔ بنارس میں رہ کر نہ تو فنِ تمثیل نگاری کی خدمت کر سکتے تھے اور نہ اپنے طبعی رجحان اور جذبے کی تکمیل کر سکتے تھے۔دوسرے اس زمانے میں شرفا ڈراما دیکھنا پسند کرتے تھے نہ اس کے فن کو سراہتے تھے بلکہ اس میں شریک ہونا بھی باعثِ عار سمجھتے تھے۔ تیسرے ڈرامے کو ادبی اور علمی کام نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے حشرؔ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے لیے بنارس چھوڑکر بمبئی چلے گئے۔ ’’بمبئی میں کاؤس جی کھٹاؤنے
۵۳روپے ماہانہ پر آغا صاحب کو اپنی کمپنی میں ملازم رکھ لیا۔ یہ آغا حشرؔ کی تمثیل نگاری کا سنگِ بنیاد تھا‘‘۔اس کے بعد انھوں نے اردشیردادا بھائی ٹھونٹی کی کمپنی میں ملازمت کی۔کچھ عرصہ ا لفریڈ ٹھیئٹریکل کمپنی سے وابستہ رہے۔ نیو الفریڈ تھیئٹریکل کمپنی کے تو وہ خاص ڈراما نگار تھے۔ حشرؔ کے ڈرامے پارسی اسٹیج پر عرصہ دراز تک کھیلے جاتے رہے جس سے حشرؔ کی شہرت میں چار چاند لگ گئے اور کمپنیوں کو بھی خوب مالی فائدہ ہوا۔ حشرؔ نے اپنی ایک کمپنی حیدر آباد میں قائم کی لیکن یہ بند ہو گئی۔ ۱۹۱۲ء یا ۱۹۱۳ء میں لاہو رمیں اپنی دوسری کمپنی’’انڈین شیکسپیرتھیئٹریکل کمپنی‘‘ کے نام سے بنائی لیکن کچھ عرصے بعد یہ کمپنی بھی بند ہو گئی۔
۱۹۱۴ء میں آغا حشرؔ کی رفیقہ حیات کا انتقال لاہور میں ہو گیا۔ ناسازگاری حالات کی وجہ سے وہ کلکتہ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے کئی ہندی ڈرامے لکھے۔ کلکتہ میں میڈن تھیٹرز میں حشرؔ کے ڈراموں کی کامیابی کے بارے میں ممتاز فن کارہ مختار بیگم نے اپنے ایک انٹرویو میں اس طرح اظہارِ خیال کیا ہے ’’آغا حشرؔ کے اسٹیج ڈر اموں کی مقبولیت کی وجہ سے میڈن تھیٹرز بہت عروج پر جاچکا تھا۔ آغا صاحب اپنے ڈراموں کی موسیقی خود ہی ترتیب دیتے تھے۔ حالانکہ وہ گا نہیں سکتے تھے لیکن یہ اُن کی بڑی خوبی تھی کہ وہ اپنے خیالات اشاروں کنایوں سے میوزک ڈا ئرکٹرکوسمجھاکراپنا مقصد پورا کر لیتے تھے اور بہترین طرزیں بنالیتے تھے۔ ان سب خوبیوں کے باوصف ان میں اچھی آواز کی کمی تھی۔ ان کے ڈرامے جس قدر معیاری تھے اور جس طرح ان کی بر صغیر میں دھوم مچی تھی،اس لحاظ سے میڈن والوں کے پاس فنِ موسیقی کی اعلیٰ درجہ کی کوئی فنکارہ نہیں تھی‘‘۔۱۹۲۸ء میں جب یہ کمپنی امرتسرآئی تو آغاحشرؔ کے ڈراموں ’’آنکھ کا نشہ‘‘ ’’ترکی حور‘‘ اور ’’یہودی کی لڑکی‘‘ نے ایک حشر برپا کر دیا۔
علم الدین سالک لکھتے ہیں کہ’’
۱۹۲۴ء میں آپ نے میڈن تھیئٹرسے قطع تعلق کر لیا اور اپنی کمپنی بناکر آگرہ، بنارس، الہ آباد، اور دیگر مقامات کی سیرکی، ہزہائینس چرکھاری نے آپ کا کھیل دیکھا۔ پچاس ہزار روپیہ دے کرکمپنی خریدلی اور خود آغا صاحب کی شاگردی اختیار کر لی۔ یہ کمپنی کچھ عرصے کے بعدپھر آغا صاحب کو عطاکر دی گئی جو بانس بریلی جاکر بند ہو گئی‘‘،چرکھاری سے جب دوبارہ کلکتہ پہونچے تو ڈراما کی دنیا ہی بدل چکی تھی۔ متکلم فلموں نے تھیٹرؤں کا بازار بالکل سرد کر دیا تھا۔ آغا صاحب نے ’’شیریں فرہاد‘‘کے بعد’’عور ت کاپیار‘‘ لکھ کر ہندوستانی فلموں میں قابل قدر اضافہ کیا‘‘، کلکتہ سے آغا حشرؔ لاہور چلے گئے جہاں انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
 سال تک ڈرامے کی خدمت کرتے رہے۔ انھوں نے بیک وقت اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں ڈرامے لکھ کر اپنی فن کارانہ صلاحیت اور زبان دانی کا لوہا منوالیا۔ آغا جمیل صاحب نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اردو ہندی ڈراموں کے علاوہ۱۹۲۲ ء میں اسٹار تھیئٹر یکل کمپنی کلکتہ کے لیے دو ڈرامے ’’اپرادھی کے‘‘ اور ’’مصر کماری‘‘ بنگلہ زبان میں آغا صاحب نے لکھے تھے جو بہت مقبول ہوئے‘‘۔ بیتابؔ بنارسی نے آغا حشرؔ کو ہندی میں ڈرامالکھنے کا چیلنج دیا تھا جس کے جواب میں حشرؔ نے ہندی میں ’’بلوامنگل‘‘ (سورداس) ’’بن دیوی عرف بھارت رمنی‘‘ لکھ کر بیتاب کا منہ بند کر دیا۔ ’’مدھرمرلی‘‘’’آنکھ کا نشہ‘‘ ’’بھگیرت گنگا‘‘ ’’سیتا بن باس‘‘ اور ’’بھیشم پر تگیا‘‘ کے سامنے تو بیتابؔ کے ہندی ڈراموں کی شہرت ماند پڑگئی۔
حشرؔ نے اپنے کئی ڈراموں کے پلاٹ شیکسپیر اور دوسرے مغربی مصنفین کے ڈراموں سے اخذ کیے ہیں۔ جیسے ’’اسیرِحرص‘‘ شیریڈن کے ’’پزارو (Pizarro)‘‘ سے، ’’مریدِ شک‘‘ شیکسپیر کے ’’دی ونٹرس ٹیل‘‘ (The Winter's Tale)‘‘ سے، ’’صیدِ ہوس‘‘ ’’کنگ جان‘‘ (King John)‘‘ سے، ’’شہیدِ ناز‘‘ ’’میثر فارمیثر (Measure For Measure)‘‘ سے، ’’سفید خون‘‘ ’’کنگ لیئر (King Lear)‘‘ سے، ’’خوابِ ہستی‘‘ ’’میکبتھ (Macbeth)‘‘ سے، ’’سلورکنگ یا نیک پروین یا اچھوتا دامن یا پاک دامن‘‘ ’’ہنری آرتھر جونز اور ہنری ہیرمین (Henry Arther jones) اور (Henry Herman) کے سلورکنگ‘‘سے، اور ’’یہودی کی لڑکی‘‘ ڈبلیو، ٹی، مانکریف (W.T.Moncriefe) کے ’’دی جیوس‘‘ (The Jewess)‘‘ سے ماخوذ ہے۔
حشرؔ نے مندرجہ بالا ڈرا موں کو اردو کا لباس اس طرح پہنایا ہے کہ کہیں ان کے کچھ اجزا بعینہٖ لے لیے ہیں‘کہیں قدرے تبدیلی کے ساتھ انھیں پیش کیا ہے اور کہیں صرف مفہوم پر اکتفا کیا ہے۔ان ڈراموں کے پلاٹ انگریزی ڈراموں سے لیے تو ضرور گئے ہیں مگر حشرؔ نے انھیں ہندوستانی تہذیب ومعاشرت اور ماحول وروایت کا جامہ اس طر ح پہنا یا ہے کہ وہ غیر زبان اورمغربی تہذیب کی دین نہیں معلوم ہوتے بلکہ ان میں مانوس کرداروں اور جانے پہچانے ماحول کی عکاسی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں اپنے طرزِمعاشرت کے نمونے اور ملک وقوم کے ذہنی پس منظر کی ترجمانی بھی ہے اورمشرقی اقدار کی آئینہ داری بھی۔ برخلاف انگریزی ڈراموں کے حشرؔ کے ڈراموں کا انجام طربیہ ہے۔
حشرؔ کے چند ڈرامے ایسے ہیں جو قدیم ہندوستانی تہذیب ومعاشرت اور ہندو دیو مالایعنی رامائن اور مہا بھارت کے قصوں پر مبنی ہیں۔جیسے بلوا منگل عرف سورداس‘بن دیوی‘مدھر مرلی‘ سیتا بن باس اور بھیشم پرتگیا وغیرہ۔ان ڈراموں کی زبان زیادہ تر ہندی ہے۔ان کے علاوہ کچھ ڈرامے ایسے ہیں جو معاشرتی‘اصلاحی اور سیاسی موضوعات سے متعلق ہیں۔جیسے ’’خوبصورت بلا‘‘ ’’ترکی حور‘‘ ’’ٹھنڈی آگ‘‘ ’’آنکھ کانشہ‘‘ ’’پہلا پیار‘‘ ’’بھارتی بالک عرف سماج کاشکار‘‘ ’’دل کی پیاس‘‘ اور’’رستم و سہراب‘‘(فردوسیؔ کے شاہنامہ سے ماخوذ)وغیرہ۔
فنِ تمثیل نگار ی میں حشرؔ کے تدریجی ارتقا‘ان کی فنّی بصیرت‘ادبی عظمت اور مقام و مرتبے کو سمجھنے اور متعین کرنے کے لیے ان کے ڈراموں کو عموماً چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اس لیے کہ ہر اگلا دور حشرؔ کے فن کی بعض نئی خصوصیات کا حامل ہے۔حشرؔ نے جب اپنی ڈرامانگاری کا آغاز کیا تو اس دور میں مالکانِ کمپنی اور عوام کی پسند کا لحاظ رکھا جاتا تھا۔ بدیہہ گوئی‘فقرہ بازی اور برجستہ گوئی،اشعارکی بھرمار،مقفیٰ اورمسجّع عبارت،گانوں کی کثرت، خطابت کا زور اور جذبات کا طوفان،ڈرامے کے لوازم اور اس کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔اندر سبھا کی روایت کااثرغالب تھا۔اسٹیج پر منشی رونقؔ بنارسی‘حافظ عبداللہ‘نظیربیگ اور حسینی میاں ظریفؔ اور ان کے بعد طالبؔ ، احسنؔ اور بیتابؔ کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ابتدائی دور میں حشرؔ نے ان تمام باتوں کو اپنایا۔’’مریدِشک‘‘ ’’مارِآستین‘‘اور’’ا سیرِحرص‘‘اسی دور کی عکاسی کرتے ہیں۔دوسرے دور میں حشرؔ نے ڈرامے کی چند روایات کو برقرار رکھا۔قافیے کا التزام‘ خطابت کے زور کے ساتھ ساتھ مکالموں میں بلند آہنگی ہے لیکن ا شعاراور گانوں میں کچھ کمی نظر آتی ہے۔حشرؔ اپنی خدا داد صلاحیت،سماجی شعور اور فنّی کاریگری کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے فقروں سے ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے میں بڑی حدتک کامیاب نظر آتے ہیں۔
تیسرا دور حشرؔ کے فنّی ارتقاء کا دور ہے۔حشر نے ا س عہد میں ڈرامے کی دیرینہ روایات سے ہٹ کر اسے نئے سلیقے سے آراستہ کیا اور اسے نئی پہچان دی۔ڈرامے کو تہذیب ومعاشرت سے متعلق اصلاحی مقصد کا ترجمان بنایا۔جمیلؔ جالبی صاحب نے صحیح کہا ہے کہ ’’آغا حشرؔ نے ڈرامے کو بلند کیا۔ اس میں معاشرتی اور اصلاحی پہلو بھی اجاگر کیے اور ڈرامے کے ذریعہ سیاسی اور اصلاحی مقصدکا کام بھی لیا۔آغا حشرؔ کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے ڈرامے کی روایت کو ہمارے مزاج میں شامل کیا۔ہمیں ڈرامے کے عملی معنی سمجھائے۔ہمیں ڈراما پیش کرنے اور دیکھنے کا سلیقہ دیا‘‘۔ اس دور میں حشرؔ نے مقفٰی نثراور بے سروپا موضوعا ت کی جگہ دقیانوسی اسٹیج پر معاشرتی‘مذہبی اور اصلاحی موضوعات کو جگہ دی۔اس دور کے ڈراموں میں نثر کا استعمال زیادہ ہے۔اشعار اور قا فیے کا التزام صرف اس حد تک جائز رکھا ہے جو کرداروں کے مزاج اور ان کی شخصیت کا صحیح عکس معلوم ہو اور ناظرین میں عمل کی شدت اور جوش پیدا کر سکے۔ اس دور کے مشہور ڈرامے ’’خوابِ ہستی‘‘ ’’خوبصورت بلا‘‘ ’’سلورکنگ‘‘ ’’ترکی حور‘‘ ’’یہودی کی لڑکی‘‘ ’’بلوا منگل‘‘ اور ’’آنکھ کا نشہ‘‘ ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ’’آنکھ کا نشہ‘‘ جب اسٹیج پر پیش کیا گیا تو ناظرین شراب کے بتاہ کن اور عبرت انگیز نتائج سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان میں سے بہت لوگوں نے شراب نوشی ترک کر دی۔
چوتھا دور حشرؔ کی ڈراما نگاری کا آخری اور انتہائی اہم دور ہے۔ اس دور کو حشرؔ کے فن کارانہ شعور کی پختگی اور ارتقائی عمل کا بہترین دورکہنا مناسب ہوگا۔ کرداروں کے مکالمے ان کی شخصیت کو ابھارنے، واقعات میں تاثیر پیدا کرنے اور عمل کو پرُ اثر بنانے کا کام کرتے ہیں۔ اس دور کے ڈراموں میں نہ اشعار کی کثرت ہے نہ قافیہ کی جھنکار۔ گانوں کا استعمال بہت کم ہے یا بالکل نہیں ہے۔
حشرؔ اپنے ڈراموں کے کردار اپنے دوستوں، آشناؤں اور ملاقاتیوں کے حلقے سے انتخاب کر لیتے تھے اور بعض اوقات ان کرداروں کو جنم دینے میں ان کے تخیل کی کارفرمائی ہوتی تھی۔ حشرؔ نے چونکہ سماج کے کسی نہ کسی طبقے نیز زندگی کے اہم مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے اس لیے ان کے یہاں بادشاہ، وزیر، بیگم، خادمہ، باغی، غدّارِ قوم، محبِّ وطن، عصمت مآب اور وفادار بیویاں، جانثار ملازم، شرابی، جواری، طوائف، ڈاکو اور قاتل، غرض کہ ہر طرح کے کردار موجود ہیں۔ا ن کے کرداروں کی ایک نمایا ں خصوصیت یہ ہے کہ مصائب اور پریشانی ان میں احساسِ شکست پیدا کرنے کے بجائے ان میں ان مصائب سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ اور زندگی کی شمع روشن کرنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔
حشرؔ کے فنِّ تمثیل نگاری کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو انھوں نے عوام کی پسند اور ذوق کا خیال رکھا اور دوسری طرف ڈرامے کے فن کو بلندی اور جِلا بخشنے کی بھر پور کوشش کی۔ انھوں نے اسٹیج کے لوازم وضروریات کا لحاظ بھی کیا اور ڈرامے میں سماجی اور اصلاحی موضوعات سمو کر اسے وسعت بخشی۔ ڈرامے کو روایتی پابندیوں سے آزاد بھی کیا اور اسے محض ایک تفریحی مشغلے کے درجے سے اوپر اٹھا کر سنجیدہ اور سبق آموز پہلوؤں کا ترجمان بنایا۔ ڈاکٹر عطیہ نشاط کے الفاظ میں ’’ان کا بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے پلاٹ، کردار، مکالمہ، نقطہ نظر، زبان وبیان اور طرز ادا ہر پہلو سے اردو ڈرامے کو اپنے پیش روؤں سے آگے بڑھایا اور پارسی اسٹیج کو وہا ں پہنچادیا جہاں وہ اس سے پہلے نہیں پہنچا تھا‘‘۔اپنے پیش روؤں اور ہم عصروں سے بلند ہوکر حشرؔ نے ڈرامے کو زندگی سے قریب تر لانے کی جو قابلِ قدر کوشش کی وہ اُن کے گہرے سماجی شعور، مشاہدے کی گہرائی، انسانی نفسیات کے عمیق مطالعے اور عصری حسیّت کی مظہر ہے۔ در اصل وہ اپنے دور کے پہلے اور آخری ارتقا پسند فن کار اور ایک عظیم ڈراما نویس تھے۔
اردو ڈرامے کی تاریخ میں حشرؔ سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے قدیم پیرہن کو جدید رنگوں سے سجا کر ڈرامے کو حسن وعشق کے کوچے اور جنگ و خون ریزی کے ہنگامے سے نکال کر زندگی کے مسائل کا ترجما ن بنایا۔ بقول پروفیسر آل احمد سرورؔ ’’انھوں نے ڈرامے کو زیادہ ’روداد‘ بنادیا۔ وہ زمانے کے ساتھ بدلتے رہے اور اس طرح وہ قدیم وجدید کے درمیان ایک کڑی ہیں‘‘
ڈراما چونکہ بیک وقت سمعی اور بصری تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے اس کی حقیقی قدر وقیمت اس کی تحریری شکل میں نہیں بلکہ اس کی اسٹیج پر پیش کش کے ذریعے ہی متعین کی جاسکتی ہے، گویا ڈراما اور اسٹیج لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پروفیسر احتشام حسین نے صحیح کہا ہے کہ ’’ڈراما کی عملی کامیابی کی کسوٹی اسٹیج ہے اور اسٹیج ایک پیچیدہ ذریعہ اظہار، ہدایت کار، اسٹیج کے لوازم،(یعنی پردے، روشنی، موسیقی وغیرہ) اور اداکار مل کر اسٹیج کی تکمیل کرتے ہیں۔ پھر ان سب کے بعد تماشائی ہے جس کی جذباتی اور ذہنی شرکت کے بغیراچھے سے اچھا ڈراما بھی کامیاب نہیں ہو سکتا‘‘۔
حشر کے ڈرامے بھی اسٹیج کے لیے لکھے گئے اور اسی پہلو سے انھوں نے اپنے پیش روؤں اور ہمعصروں سے بہت آگے بڑھ کر کامیابی حاصل کی۔ آج بھی ان کے ڈراموں سے صحیح طور پر لطف اندوز ہونے کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کی حقیقی قدر وقیمت متعین کرنے کے لیے بھی اور یہ جاننے کے لیے بھی کہ وہ اسٹیج تکنیک کو کتنی پُرکا ری سے استعمال کرتے ہیں، سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ انھیں اسٹیج پر پیش کرکے حشرؔ کے کمالِ فن، ان کی تخلیقی صلاحیت اور ان کی طبّاعی کے جوہر کو نمایاں کیا جائے۔ ان کے فن کی عظمت اسٹیج کے پردے ہی میں سے حقیقی جلوہ گری کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔
********